
Tipu Sultan By Shameem Ali Khan
Free Download Urdu Books and Novels, Digest From Here Online in pdf Format. Download below Link and enjoy the writter . if you want to any books please send me comments.inshAllah we will try to solve your problem.All the information and novels/books here are collected from reliable sources and appeared to be working fine.
سلطان ٹیپو شھید
خاندانی پس منظر
آپ کے والد کا نام حیدر علی تھا۔ جو کہ میسور کے والی نواب تھے۔ آپ کے والد نے راجہ میسور راجے دڑیار کی فوج میں معمولی سپاہی سے ملازمت اختیار کی تھی۔ جو کہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے بہت جلد ڈنڈیگل کے گورنر مقرر ہوۓ۔ کیونکہ راجہ ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو سمجھ چکا تھا جن کی وجہ سے ایک معمولی سپاہی کو اس قدر اہم گورنری کا عہدہ تغویض کیا۔ آپ کے دادا بھی میسور کے راجہ کی فوج میں بطور سپاہی ملازم تھے۔ اور ان کی وفات کے بعد سلطان ٹیپو کے والد حیدر علی نے بھی راجہ میسور کی فوج میں بطور سپاہی ملازمت حاصل کر لی جو ترقی کرتے ہوۓ ڈنڈی گل کے گورنر مقرر ہوۓ آپ کا خاندان فوج میں ملازمت کرتا ہوا آ رہا تھا۔ کیونکہ آپ کے باپ کے علاوہ دادا بھی جن کا نام فتح محمد تھا وہ بھی صوبہ اسرا کے حاکم نواب درگاہ قلی خاں کے دربار میں فوج میں ایک اہم عہدے پر مامور تھا۔ آپ کے دادا ایک جنگ میں شہید ہو گۓ تھے۔ آپ کے دادا کے تین بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں۔
1۔ حیدر علی
2۔ ولی محمد
3۔ شہباز احمد
|
|
حیدر علی جو کہ ٹیپو سلطان کے والد تھے وہ اپنے باپ کی اولاد میں سے سب سے بڑے تھے باقی دونوں بھائی ان سے چھوٹے تھے۔ جب آپ کے دادا شہید ہو گۓ تو ان کے خاندان کا ملازمت کے علاوہ کوئی ذریعہ روزگار نہ تھا جس کی وجہ سے کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تو بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے سارے خاندان کے افراد کا بوجھ ان کے شانوں پر آن پڑا۔ تو آپ نے سب سے پہلے اپنے بھائی شہباو احمد کو سرنگا پٹم بلایا اور ان کی تربیت کا بندوبست کیا۔ ان دنوں ہر بچے کو درجہ ذیل مہارتوں میں کمال پیدا کرنا فخر سمجھا جاتا اور ان مہارتوں میں صلاحیتوں کا پیدا کرنا قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
1۔ شمشیر زنی۔
2۔ گھوڑ سواری۔
3۔ تیر اندازی
4۔ نشانہ بازی۔
5۔ دیگر جنگی فنون میں کمال پیدا کرنا۔
کیونکہ ان کے زمانہ میں جنگی تربیت کا زیادہ رواج تھا کیونکہ عام جنگيں لڑی جاتی تھیں۔ تو باکمال افراد کی سخت ضرورت اور ان کی قدر ہوتی تھی۔ اس لیے ان دونوں بھائیوں نے نہایت شوق اور محنت سے تمام جنگی فنون میں کمال حاصل کیا اور جنگی فنون میں کمال اس قدر حاصل کیا کہ پورے علاقے میں شہرت ہونے لگی۔
انہی جنگی فنون میں مہارت و کمال کی وجہ سے میسور کے راجہ نے ان کو فوج میں بھرتی کر لیا جس کی وجہ سے کچھ مالی مشکلات میں بھی کمی ہوئی دیون ملی میں مرہٹوں کے ساتھ لڑائی ہوئی جس کی وجوہات درج ذیل تھیں۔
1۔ دہلی کی مغلیہ سلطنت کمزور ہونے کے باعٹ مرہٹے اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے لگے۔
2۔ مرہٹے مغلیہ سلطنت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔
3۔ آۓ دن چھوٹی موٹی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ تو ان دنوں میسور ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ تو 1761ء میں مرہٹوں نے حملہ کر دیا۔ راجہ میسور مرہٹوں کے مقابلے میں حیدر علی کی فوج کو فتح حاصل ہوئی اور حیدر علی کی فوج نے مرہٹوں کی فوج کو مار بھگایا۔ مگر حاسدوں نے حیدر علی کے خلاف سر اٹھا لیا۔ راجہ میسور کی ایک رانی اور ایک ہندو وزیر جس کا نام کھنڈے راؤ تھا۔ نے حیدر علی کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اور اہم کردار ادا کیا انھوں نے راجہ کو بھی حیدر علی کے خلاف خوب بھڑکایا کیونکہ حیدر علی ایک مسلمان تھا اور راجہ بھی غیر مسلم تھا۔ اس وجہ سے اس کے دل میں بھی عناد موجود تھا۔ تو حاسدوں نے راجہ کو جب حیدر علی کے خلاف بھڑکایا تو راجہ بھی اس کے خلاف ہو گیا۔
"جسے خدا عزت دے کوئی ذلیل نہيں کر سکتا"
حیدر علی کے خلاف حاسدوں کی سازشیں تو جاری تھیں۔ انھوں نے آپس میں مشورے سے طے کیا کہ جب حیدر علی سرنگا پٹم آۓتو اس کی رہائش گاہ کو اچانک خاموشی سے آگ لگا دی جاۓ۔ لیکن جسے اللہ تعالی محفوظ رکھے کوئی اس کو ہر گز نہیں پہنچا سکتا۔ تو حیدر علی کو اس سازش کا پہلے ہی علم ہو گیا۔ وہ اکیلا ہی سرنگا پٹم سے نکل کر بنگلور آ گیا اور اپنے بیوی بچوں کو وہی پر رہنے دیا۔ جس کی وجہ سے اکھنڈے راؤ اور دیگر حاسد اپنے منصوبے میں ناکام رہے اور حیدر علی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ بلکہ وہ اپنے اعصاب پر بھی قابو نہ رکھ سکے اور راجہ سے حیدر علی کو گرفتار کرنے کے لیے فوج کی اجازت چاہی جو راجہ نے اس کو دے دی تو کھنڈے راؤ نے راجہ کی اجازت سے فوج کو حیدر علی کی کرفتاری کے لیے روانہ کر دیا۔
|
|
|
|
0 comments:
Post a Comment