Wednesday, 17 July 2013

Sikander e Azam be Jatt Tha by Mustansar Hussain Tarar


Sikander e Azam be Jatt Tha



Free Download Urdu Books and Novels, Digest From Here Online in pdf Format. Download below Link and enjoy the writter . if you want to any books please send me comments.inshAllah we will try to solve your problem.All the information and novels/books here are collected from reliable sources and appeared to be working fine.

 


Download


Sikander e Azam be Jatt Tha  ReadOnline Below


Download


سکندر اعظم بھی جاٹ تھا از مستنصرحسین تارڈ



ہر انسان کو اس بے ثبات دنیا میں زندگی گزارنے کا ایک بہانہ درکار ہوتا ہے وہ چاہے علم سے بے بہرہ ہو لاشعوری طور پر آگاہ ہوتا ہے کہ اس سے پیشتر کھربوں اس جیسے لوگ آئے اور خاک میں خاک ہوئے۔ اس عظیم کائناتی نظام میں اس کی حیثیت ایک ذر ے جتنی بھی نہیں ہے اور بالآخر اس نے فنا کی تاریکی میںگم ہونا ہے جیسے اس سے پیشتر کے ان گنت لوگ ہوئے۔ اسے اپنی بے حیثیتی کا اندازہ ہوتا ہے تو پھر وہ کیسے اپنی اس حیات کو جو محض چند روز کی ہے بسر کرے اور ذرا فخر سے کرے تب وہ کبھی اپنی نسلی برتری کے جھنڈے اٹھاتا ہے اپنی قومی برتری کے گیت گاتا ہے اور ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کا وجوداہم ہے اور بقیہ لوگ اس سے کمتر ہیں یہ جو ذات پات کے بکھیڑے ہیں یہ بھی حضرت انسان نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے تخلیق کئے۔ صرف اس لئے کہ اس بے جواز زندگی کا کوئی نہ کوئی جواز تو تلاش کیا جائے۔ چنانچہ اگر ہم نہایت نچلی سطح پر آتے ہیں ۔ زمینی حقائق کی قربت میں آتے ہیں تو یہاں ہر قبیلہ اپنی برتری ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ہر ذات اپنے آپ کو دوسروں سے افضل گردانتی ہے اور یہ سب بہانے ہیں روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے۔ ہم اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ دراصل ہماری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ہم جیسے اربوں آئے اور چلے گئے اور باقی رہے نام اللہ کا۔ لیکن انسان کرے بھی تو کیا کرے۔ چلئے اپنے آپ کو ذات پات اور قبیلے کا فریب دیکر اس مختصر زندگی میں ذرا ہم محسوس کریں تو کچھ ایسا حرج بھی نہیں۔ یہ صرف جاٹ ، راجپوت یا سید ہی نہیں جو اپنے آپ کو دوسروں سے سپیرئرگردانتے ہیں آپ کسی اعوان، نیازی، ملک، ارائیںیا مغل سے تو بات کرکے دیکھئے۔ اللہ بخشے ہمارے عزیز دوست سلیم بیگ تھے تو وہ خوشگوار موڈ میں ہوتے تو کہا کرتے تھے کہ بے شک آپ بیگ نہیں ہیں لیکن میں آپ کو کمتر تو نہیں سمجھتا کہ آپ میرے دوست ہیں۔ شاعر مشرق اگرچہ ہمیں تو سبق پڑھاتے تھے کہ نہ تو ایرانی ہے نہ افغانی لیکن اپنے کشمیری ہونے پر بے حد نازاں تھے اور بیٹی کے رشتے کے لیے وہ صرف کسی کشمیری خاندان کو ہی اہمیت دیتے تھے۔ میں ایسے راجپوت خاندانوں سے واقف ہوں جو ستلج کے کناروں پر واقع راجپوتوں کے جو چھ سات گاؤںتھے صرف ان میں رشتے کرتے تھے یعنی انہیں باہر کے راجپوت بھی قبول نہیںتھے۔ پاکستان بننے کے بعد جب وہ اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر ادھر چلے آئے تو بھی وہ صرف انہی خاندانوں میں اپنے لڑکے اور لڑکیاں بیاہتے تھے جن کا تعلق ستلج کے کناروں پر واقع ان چھ سات گاؤں سے ہوتاتھا۔مجھے کسی ذات پات کے شوقین جاٹ نے کسی ہندو جاٹ کی انگریزی میں لکھی ہوئی ایک کتاب ’’دی جاٹس ‘‘ پڑھنے کے لیے دی موصوف نے پوری دنیا کے اہم ترین لوگوں کو جاٹ ثابت کردیا اور ان میں بے چارہ سکندر اعظم بھی شامل تھا۔ ڈنمارک چند بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اور ان میں سے ایک کا نام جٹ لینڈ ہے۔ جسے وہ مقامی لہجے میں شاید یوٹ لینڈ کہتے ہیں۔ ’’دی جاٹس ‘‘کے مصنف کا کہنا ہے کہ یہ دراصل جاٹوں کی سرزمین ہے اور ایک پرانا نام ہے یعنی سارے کے سارے اہل ڈنمارک بھی جاٹ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں میں بھی کہوں کہ جب کبھی ڈنمارک جانا ہوتا تھا تو وہاں کی خواتین میری اتنی پذیرائی کیوں کرتی تھیں۔ یعنی وہ ایک جاٹ بھائی کو دیکھ کر خوش ہوتی تھیں، شدید افسوس ہوا۔میرے والد کے ایک دوست تھے فیروز تارڑ، موصوف بچپن میںگھر سے نکلے کسی مشنری کے قابو آگئے اور عیسائی ہوگئے بعد میں کسی نے بتایا کہ پھر سے مسلمان ہوگئے ہیں اور بہت بعد میں پتہ چلا کہ پھر سے عیسائیت اختیار کرلی ہے۔ آخری دم تک پتہ نہ چلاکہ ہیں کیا لیکن وہ اس دوران مسلسل جاٹ رہے کہا کرتے تھے کہ پتر ویسے تو جاٹوں کی تمام ذاتیں ہی سب سے برتر ہیں۔ یعنی یہ وڑائچ ، چیمہ، باجوہ اور چٹھے وغیرہ لیکن آپس کی بات ہے کہ یہ بھی کیا ہیں بس تارڑ ہی تارڑ ہیں۔مرحوم صادقین اکثر مجھے چھیڑنے کی خاطر کہا کرتے تھے کہ میاں ہمارے ہاںامروہہ ہیں یہ جو جاٹ لوگ ہوتے ہیں ہمارے مزارع ہوا کرتے تھے تم شکر کرو کہ ایک سید ہونے کے باوجود میں ایک جاٹ مصنف کی کتاب کو مصور کر رہا ہوں۔ مجھے تاؤ تو بہت آتا لیکن چپکا بیٹھا رہتا کیونکہ مجھے ابھی ان سے اپنی کتاب کاسرورق بھی تو بنوانا تھا۔ ایک شام وہ میری کتاب کے ایک باب کو مصور کررہے تھے تو یکدم ایک آہ بھر کے کہنے لگے کیسی بلندی کیسی پستی۔ میں نے ذرا حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا تو وہ شرارت سے مسکرا رہے تھے ایک زمانہ تھا کہ ہم پیرس میں تھے اور مشہور ناول نگار البرٹ کامیو کے ناول کو مصور کررہے تھے کچھ یوں کہ بیگم کامیو ہمارے برابر میں کھڑی ارغوانی شراب کا ایک جام تھامے ہمیں پیش کرتی تھیں اور اب یہ حالت ہے کہ لاہور میں ہیں اور ایک تارڑ جاٹ کے سفر نامے ’’نکلے تری تلاش میں ‘‘ کو مصور کررہے ہیں اسے کہتے ہیں کیسی بلندی اور کیسی پستی۔
میں نے نہایت تحمل سے کہا ’’صادقین کیا بتاؤں کہ میری بھی یہی کیفیت ہے‘‘۔چونک کر بولے ’’کیا مطلب ‘‘
میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا ’’ایک زمانہ تھا جب اس کتاب کا سرورق ہم مصور مشرق عبدالرحمان چغتائی سے بنوایا کرتے تھے اور اب یہ حالت کہ صادقین سے بنوا رہے ہیں۔صادقین نے غصے میں آکر مارکر پھینکا اور اپنی ٹیڑھی انگلیاں میری آنکھوں کے سامنے نچاتے ہوئے کہنے لگے ’’آپ جاٹ کے جاٹ ہی رہے۔’’ نہیںبناؤں گا آپ کا سرورق ‘‘ اور پھر کمرے سے نکل گئے چند روز کی خاموشی کے بعد انہوں نے خود فون کیا کہ یہاں آجاؤ تمہارے بغیر دل نہیں لگ رہا ‘‘
چنانچہ بقول صادقین ۔ ہم ایسے جاٹ کے جاٹ

0 comments:


Designed by
Blog Need Money | Distributed Deluxe Templates